سوات Swat -Malakand Pedia

ملاکنڈ پیڈیا 

سوات — یہ اُن علاقوں میں سے ایک ہے جو "دیر، سوات اور چترال ایجنسی" میں شامل تھے، جو کہ صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) میں واقع ہے۔ یہ علاقہ دریائے سوات کی وادی پر مشتمل ہے، جو کہ بلند و بالا پہاڑی سلسلوں سے (جو چترال سے متصل ہیں) نکلتا ہے اور جنوب-جنوب مغرب کی جانب بہتا ہوا چکدرہ پہنچتا ہے۔ وہاں سے یہ جنوب مغرب کی طرف مڑتا ہے اور ملاکنڈ تک پہنچتا ہے، پھر شمال مغرب کی طرف بہتا ہے جہاں یہ دریائے پنجکوڑہ سے ملتا ہے۔ اس کے بعد دوبارہ جنوب مغرب کی جانب بہتا ہے جب تک کہ یہ امبار سے آملتا ہے، پھر جنوب مشرق کی سمت اختیار کرتا ہے اور بالآخر پشاور ضلع میں واقع ابازئی تک پہنچتا ہے۔

دریائے سوات کے دریائے پنجکوڑہ سے ملنے کے بعد کا جو علاقہ ہے، وہ سیاسی طور پر سوات نہیں بلکہ اتمان خیل کہلاتا ہے۔


سوات دو واضح حصوں میں تقسیم ہے:


1. سوات کوہستان — یہ پہاڑی علاقہ ہے جو دریائے سوات کے بالائی حصے اور اس کی معاون ندیوں پر مشتمل ہے، جو جنوب میں "عین یا این" تک پھیلا ہوا ہے؛


2. اصل سوات — یہ مزید دو حصوں میں منقسم ہے:


بر سوات (بالائی سوات)


کز سوات (زیریں سوات)


زیریں سوات کی حدود "لنڈاکے" سے شروع ہو کر "قلنگی" تک پھیلی ہوئی ہیں، جو کہ دریائے پنجکوڑہ کے ساتھ ملنے سے کچھ میل پہلے واقع ہے۔"

سوات اور پنجکوڑہ دریاؤں کے درمیان واقع علاقہ، سوات بشمول سوات کوہستان، رقبے کے لحاظ سے تقریباً دیر کے برابر ہے؛ تاہم وادی کی لمبائی 130 میل سے زیادہ نہیں، جبکہ اس کی اوسط چوڑائی تقریباً 12 میل ہے۔ وادی میں زرخیز میدانی علاقے ہیں جو دریا کے کناروں کے ساتھ ساتھ تقریباً 70 میل تک پھیلے ہوئے ہیں، اور سوات کوہستان میں دیودار کے وسیع جنگلات واقع ہیں۔ وادی کا آغاز اس مقام سے ہوتا ہے جہاں سوات اور پنجکوڑہ دریا آپس میں ملتے ہیں، جس کی بلندی 2,000 فٹ ہے، اور وہاں سے شمال کی طرف زمین تیزی سے بلند ہوتی ہے، یہاں تک کہ پہاڑوں کی چوٹیاں 15,000 سے 22,000 فٹ تک کی بلندی پر واقع ہیں۔ زیریں وادیوں کا موسم خاص طور پر خزاں کے موسم میں ملیریا زدہ اور غیر صحت بخش ہے۔

دیر، سوات، باجوڑ، اور اُتمان خیل کی تاریخیں اس قدر گڈمڈ اور آپس میں جُڑی ہوئی ہیں کہ ان کو الگ الگ بیان کرنا ممکن نہیں رہا۔

ان علاقوں کا سب سے پہلا تاریخی تذکرہ یونانی مؤرخ اَریئن (Arrian) نے کیا، جو لکھتا ہے کہ 326 قبل مسیح میں سکندرِ اعظم نے اپنی فوج کو کنڑ، باجوڑ، سوات، اور بونیر کے راستے گزارا؛ تاہم اس کے جانشین سیلوکس (Seleucus) نے بیس سال بعد یہ علاقے چندرگپت کو دے دیے۔ اس زمانے میں یہاں کے باشندے ہندی نسل سے تعلق رکھتے تھے، اور بدھ مت یہاں کا غالب مذہب تھا۔ یہ لوگ اپنے مقامی بادشاہوں کے تحت پندرہویں صدی تک تقریباً بغیر کسی مداخلت کے رہتے رہے۔ یہی لوگ آج کل غیر پٹھان قبائل کے آبا و اجداد ہیں، جیسے گُجر، توروال، گاوری وغیرہ، جو اب بشقار (دیر) اور سوات کوہستان تک محدود ہو چکے ہیں۔


اس کے بعد یوسفزئی اور دیگر پٹھان قبائل ، اور جنہیں اُتمان خیل کی مدد حاصل تھی، نے ان علاقوں پر اختیار حاصل کیا؛ اور سولہویں صدی تک یوسفزئی قبیلہ بونیر، زیریں سوات، اور پنجکوڑہ وادی میں آباد ہوا ۔گیگیانی اور ترکلانی, اتمانخیل قبائل نے باجوڑ میں اپنا تسلط قائم کیا۔

انگریز کا دور ۔

جب 1849 میں پشاور وادی میں برطانوی حکومت قائم ہوئی تو پہاڑی علاقوں میں داخل ہونے کی کوئی کوشش نہ کی گئی۔ لیکن قبائلیوں کے برطانوی علاقوں پر حملے، اور مجرموں و بدنام لوگوں کو پناہ دینا، نظر انداز نہیں کیے جا سکتے تھے؛ چنانچہ 1849 میں اُتمان خیل کے خلاف، اور 1852 میں دوبارہ اُتمان خیل اور سمہ رانیزی کے باشندوں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں۔ دوسری مہم میں سخت سزا دی گئی۔

غدر یا جنگ آزادی کے سال (1857) میں کوئی خلل واقع نہ ہوا، حتیٰ کہ 55ویں دیسی پیادہ فوج کے باغیوں کو سوات میں پناہ بھی نہ دی گئی، اور یہ پناہ خود اخوند نے مسترد کی۔ تاہم، اخوند نے یہ فیصلہ مقامی سیاسی وجوہات کی بنا پر کیا، نہ کہ برطانوی حکومت سے کسی محبت کی وجہ سے۔ 1863 میں، ضلع کی سرحد اور مالاکنڈ کے درمیان کے علاقے کے خلاف امبیلا مہم عمل میں آئی۔

1877 کے اوائل میں اخوند وفات پا گیا، اور اس کا بیٹا جب اس کی جگہ لینے کی کوشش کرنے لگا تو اسے دیر کے خان کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ پورا علاقہ، باجوڑ میں ناوگئی تک، انتشار کا شکار ہو گیا، اور اس افراتفری سے بھرپور لڑائیوں اور پیچیدہ سفارتی چالوں کے دوران، جندول کا عمرا خان، جو باجوڑ کے شاہی خاندان کا فرد تھا، نمایاں طور پر ابھرا۔

ابتداء میں وہ اخوند کے بیٹے میاں گل کے ساتھ اتحاد میں تھا، اور 1882 تک اس نے دیر کے خان سے اس کا تقریباً آدھا علاقہ فتح کر لیا۔ مگر اسی سال میاں گل نے عمراخان سے علٰیحدہ ہو کر دیر کے خان سے ہاتھ ملایا۔ اگلے سال عمرا خان کی مشکلات میں اس وقت اضافہ ہوا جب ایک مذہبی پیشوا، جس کے بارے میں کہا گیا کہ اسے کابل سے عمراخان کو ناکام بنانے کے لیے بھیجا گیا ہے اور جو مکرانی ملا کے نام سے جانا جاتا تھا، اُتمان خیل کے علاقے میں پہنچا۔

اس کی تقریروں نے 1887 میں پورے علاقے — جن میں دیر، نووگئی، سوات، اُتمان خیل، سالارزئی، اور ماموند شامل تھے — کو عمرا خان کے خلاف متحد کر دیا۔ لیکن یہ اتحادی شکست کھا گئے، آپس میں جھگڑ پڑے اور منتشر ہو گئے۔ 1890 تک، جب ملا ملک سے فرار ہو چکا تھا، عمرا خان پورے دیر پر قابض ہو چکا تھا، اور دیر کا خان (محمد شریف) سوات میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھا۔

 1892 میں، ایک مالی امداد کے عوض، اس نے چترال کے ساتھ ڈاک کی ترسیل کا راستہ کھلا رکھنے کی ذمہ داری قبول کی، اور پھر عظیم مہتر امان الملک کی وفات کے بعد چترال کے معاملات میں دخل اندازی شروع کر دی۔

1894 میں "اسمار سرحد کمیشن" نے حکومت اور عمرا خان کے درمیان کشیدگی کو بڑھا دیا، جو اگلے سال کھلی دشمنی میں بدل گئی (تفصیل کے لیے دیکھیں: چترال)۔ اس تنازع میں شکست کے بعد، عمرا خان 1896 میں کابل فرار ہو گیا۔ دیر کا خان فوراً دوبارہ اقتدار میں آ گیا اور حکومت کے ساتھ ایسے معاہدے کیے جن کے تحت چترال کی سڑک کو بغیر ٹیکس کے کھلا رکھا گیا۔ سوات کی قبائل نے بھی ایسے ہی معاہدے کیے، اور دونوں کو مالی امداد دی گئی۔

چترال مہم کے اگلے سال، "سیاسی ایجنسی دیر و سوات" قائم کی گئی، اور چکدرہ (زیریں سوات)، ملاکنڈ، اور درگئی میں حفاظتی چوکیوں کی تعمیر کی گئی۔

۔ چترال کو تھوڑے ہی عرصے میں ایجنسی کے ماتحت شامل کر لیا گیا، جو اس سے قبل گلگت کے ساتھ منسلک تھا۔ ۱۸۹۵ء کے واقعات سے پیدا ہونے والی بدامنی، افغان حکام کی سازشوں، اور مذہبی طبقے کی فطری عداوت — جو ایک بظاہر پُرامن دور کے بعد دوبارہ ظاہر ہوئی، جس دوران نواب کا خطاب خانِ دیر کو دیا گیا — ان سب عوامل نے ۱۸۹۷ء کی بغاوت کو جنم دیا، جس میں سوات کے ملّا مستان (پاگل ملّا) کی قیادت میں قبائل نے چکدرہ اور ملاکنڈ کے مقامات پر حملہ کیا۔ ان کے حملے بڑی مشکل سے پسپا کیے گئے؛ اور اس کے بعد ہونے والی تادیبی کارروائیوں میں ماموند (باجوڑ)، یوسفزئی (سوات)، اور بونیر والوں کو تابع کرنے کے لیے فوجی دستے روانہ کیے گئے۔ دیر کے خلاف کوئی کارروائی ضروری نہ سمجھی گئی کیونکہ نواب نے اپنے لوگوں کو دشمنی پر آمادہ ہونے سے روک رکھا تھا۔

۱۹۰۱ء میں نوشہرہ سے درگئی (جو ملاکنڈ درّے کے دامن میں واقع ہے) تک ریلوے لائن کھولی گئی۔ قبائلی جھڑپیں وقفے وقفے سے جاری رہیں، لیکن ۱۸۹۷ء کے بعد ایجنسی میں کوئی بڑا واقعہ پیش نہ آیا، حتیٰ کہ ۱۹۰۴ء میں نوابِ دیر کے انتقال کا وقت آیا۔ ان کے بڑے بیٹے اورنگزیب (بادشاہ خان) کو جانشین تسلیم کیا گیا، لیکن ان کی جانشینی کو ان کے چھوٹے بھائی میاں گل جان نے چیلنج کیا۔


سوات کا اصل علاقہ اب یوسفزئی پٹھانوں کی اکازئی شاخ کے لوگوں سے آباد ہے (تعداد تقریباً ۱,۵۰,۰۰۰)، جبکہ کوہستان توروال اور گاوری اقوام پر مشتمل ہے (جن کی تعداد تقریباً ۲۰,۰۰۰ بتائی گئی ہے)۔ یوسفزئی مختلف قبائلی شاخوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ دریا کے بائیں کنارے پر زیریں سوات میں رانیزئی اور خان خیل، اور بالائی سوات میں سلیزئی اور بابوزئی آباد ہیں۔ دریا کے دائیں کنارے پر بالائی سوات میں شامزئی، سبوجنی، نیکبی خیل، اور شموزئی، اور زیریں سوات میں ادین زئی، آبازئی، اور خدک زئی اقوام آباد ہیں۔ دائیں کنارے کے تمام قبائل (سوائے آخری دو کے) کو مجموعی طور پر خوازوزئی کہا جاتا ہے؛ اور بائیں کنارے کے تمام (سوائے رانیزئی کے) بایزئی کہلاتے ہیں۔ پوری وادی اور کوہستان کی آبادی خاصی زیادہ ہے؛۔

یہ لوگ خالص یوسفزئی پشتو زبان بولتے ہیں، جبکہ کوہستان کے توروال اور گاوری اپنی ایک علیحدہ زبان بولتے ہیں، جو ہزاره کے گوجروں کی بولی، یعنی ہندکو کے کسی لہجے سے مشابہ بتائی جاتی ہے۔

مذہب

یہ سب لوگ مذہباً سنی مسلمان ہیں، لیکن کوہستان کے لوگ چونکہ نو مسلم ہیں،

سوات، خصوصاً سیدو میں، شمالی ہندوستان (موجودہ پاکستان) کے اہم ترین مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ عبدالغفور، جنہوں نے کئی برس سیدو میں قیام کیا، جہاں وہ یوسف زئی قبائل اور اُن کے ہمسایوں پر بے پناہ اثرورسوخ رکھتے تھے۔ اُن کے پوتوں نے اُن کے روحانی اثرات کو کسی حد تک وراثت میں پایا ہے۔ 

ایک اور زندہ مذہبی رہنما ملا مستان (جسے "پاگل ملا" بھی کہا جاتا ہے، اور بعض اوقات سرتور یا "کالے سر والا فقیر" بھی کہا جاتا ہے)، سعداللہ خان ہیں۔ وہ پیدائشی طور پر بونیر کے ایک ملک کے بیٹے تھے اور جوانی میں ایک نامور کھلاڑی رہے۔ انہوں نے کچھ عرصہ اجمیر میں گزارا اور ۱۸۹۵ میں بونیر واپس آ گئے۔ اُن کی پارسائی نے جلد ہی انہیں سوات اور دریائے سندھ کے کوہستانی علاقوں میں معروف کر دیا، اور اُن کی مذہبی حرارت و جوش نے انہیں "مستان" کا لقب دلوایا۔۔

تحقیق ۔امجد علی اتمانخیل بحوالہ ۔

Imperial gazzaitier of India 1908 . 

Post a Comment

1 Comments

  1. جناب اگر اپ مہربانی کر کے مجھے شانگلے کا استھرے کانا غوربند کا صحیح استھری ریاست سواٹ کی بعد اور ریاست سوات سے پہلے

    ReplyDelete

Please confirm you are human to enter the site